image رسائی

اسلامک بینکنگ سے متعلق عمومی سوالات

اسلامی بینکاری سود پاک اور احکام شریعت  کے تحت تجارتی اصولوں پر کام کرتی ہے۔ جس میں عمومی طور پر ڈپاذٹ کے لئے مضاربہ اور مشارکہ، جبکہ سرمایہ کاری (فائنانسنگ) کے لئے مرابحہ ، اجارہ،شرکت متناقصہ اور دیگر طریقہ ہائے تمویل استعمال کئے جاتے ہیں۔

 سود یا رِبا ہر اُس مشروط زیادتی کو کہا جاتا ہے جو رقم یا منفعت کی صورت میں کسی قرض پر بلا عوض وصول کیا جائے۔

سود سے متعلق ارشادِ باری تعالٰی ہے:

1۔  (ترجمہ) جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اُٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نےچھو کر پاگل بنا دیا ہو۔ یہ اس لئے ہو گا کہ انہوں نے کہا تھا کہ :”بیع بھی تو سود ہی کی طرح ہوتی ہے”۔ حالانکہ اللہ نے بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شخص کے پاس اس کے پروردگار کی طرف سے نصیحت آ گئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آ گیا تو ماضی میں جو کچھ  ہوا وہ اسی کا ہے۔ اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں۔ وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔ (البقرہ/ 275)

2۔ (ترجمہ) اے ایمان  والو! اللہ سے ڈرو اور اگر تم واقعی  مومن ہو توسود کا جو حصہ بھی (کسی کے ذمہ) باقی رہ گیا ہو اسے چھوڑ دو (278) پھر بھی اگر تم ایسانہ کرو گے تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف سے اعلانِ جنگ سن لو۔ اور اگر تم (سود سے) توبہ کرو تو تمہارا اصل سرمایہ تمہاری حق ہے۔ نہ تم کسی پر ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ (البقرہ/ 279)

سود سے متعلق احادیثِ مبارکہ:

1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ سود کے ستّر گناہ ہیں۔ ان میں سے ادنٰی گناہ ایسا ہے جیسے کو ئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے (رواہ ابن ماجہ و  البھیقی)

2۔ حضرت عمرو بن العاص  رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ، جس قوم میں سود پھیل جائے وہ یقیناََ  قحط سالی میں مبتلا ہو جاتی ہے۔ اور جس قوم میں رشوت پھیل جائے وہ مرعوبیت میں گرفتار ہو جاتی ہے۔ (رواہ احمد)

3۔ حضرت عبداللہ بن مسعود  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، جس شخص نے سود کے ذریعہ سے زیادہ مال کمایا، انجامِ کار اس میں کمی ہو گی۔ (رواہ ابن ماجہ و  الحاکم)

فائدہ: امامِ حدیث عبدالرزاق ؒ نے معمر سے نقل کیا  ہے کہ معمر نے فرمایا کہ ہم نے سنا ہے کہ سودی کام پر چالیس سال گزر نہیں پاتے کہ اس پر گھاٹہ آجاتا ہے یعنی کوئی حادثہ پیش آ جاتا ہے جو اس کو نقصان پہنچا دیتا ہے۔  (از مسائل سود مفتی شفیعؒ)

 

محض لفظ بینکنگ استعمال کرنے سے کوئی بھی ادارہ حلال اور حرام قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بلکہ کسی بھی ادارے کے حلال اور حرام ہونے کا دارومدار اس میں ہونے والے معاملات اور لین دین کے طریقہ کار پر ہے۔ بینکنگ کا یہ تصور کہ لوگوں سے ان کی جمع شدہ رقوم لے کر اس کی حلال سرمایہ کاری کرنا اور نفع و نقصان کی بنیاد پر شراکت کرنا نہ صرف جائز بلکہ پسندیدہ  بھی ہے۔ اس کی نسبت وہ معاملات جو سود کی بنیاد پر کئے جائیں اسلام میں ان کی کو ئی گنجائش نہیں ہے۔

 

 بے شک زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کا اسلامک بینکنگ ڈویژن، بینک کا حصہ ہے مگر اس کے سرمائے اور معاملات کو شرعی اور قانونی تقاضوں کے عین مطابق رکھنے کے لئے جدا رکھا گیا ہے۔ ایک ہی چھت کے نیچے کام کرنے سے زرعی ترقیاتی بنک لمیٹڈ کا اسلامک بینکنگ ڈویژن اور زرعی ترقیاتی بینک ایک جیسے نہیں ہو سکتے۔ مثلاََ ایک شخص کی دو دکانیں ہوں۔ ایک میں شراب کا کاروبار ہوتا ہے اور دوسری میں دودھ کا، تو کیا دودھ کی دکان کی آمدن محض اس لئے حرام ہو گی کہ اس کی شراب کی آمدن ہے جبکہ دونوں دکانوں کی آمدنی اور حسابات بلکل  ہوں گے؟ اور علیحدہ ہوں گے؟ جس طرح مثال سے یہ بات واضح ہوئی اسی طرح زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کےاسلامک بینکنگ ڈویژن کا بھی یہی معاملہ ہے۔

کسی بھی معاملے کی صحت اور درستگی کا فیصلہ محض اس کے حتمی نتیجے پر منحصر نہیں ہوتا بلکہ ان اقدام اور ذرائع پر ہوتا ہے جن کی وجہ سے وہ نتیجہ سامنے آیا ہے مثلاََMc Donald یا KFC  کا برگر امریکہ اور پاکستان میں نہ صرف یکساں دستیاب ہے بلکہ ذائقے اور ظاہری شکل و صورت میں بھی مما ثلت ہے۔ تو کیا ہم یہ مان لیں کہ دونوں حلال یا دونوں حرام ہیں؟ نہیں ! ہم سب اس بات سے واقف ہیں کہ امریکہ میں ملنے والا برگر حرام اور پاکستان والا حلال ہوتا ہے۔ جس کی اصل وجہ اس میں استعال ہونے والے حلال جانور کے حلال طریقے سے ذبیحہ گوشت ہے۔ اسی طرح اگر کسی کو بھوک لگی ہو تو وہ شخص چوری کر کے روٹی کھا سکتا ہے۔ اور وہ خرید کر بھی کھا سکتا ہے۔ بظاہر دونوں صورتوں میں نتیجہ ایک سا ہےمگر ایک طریقہ اسلام میں جائز ہے جبکہ دوسرا ناجائز۔

یہی اصول اسلامی اور مروجہ بینکاری پر بھی لاگو آتا ہے۔ اسلامی بینکاری حلال طریقہ کار پر مبنی ہے کیونکہ یہ شرعی اصولوں کے مطابق اپنے عقود طے کرتا ہے اور مروجہ بینکاری حرام ہے کیونکہ اس کی بنیاد سود پر ہے۔

 

منافع کی شرح طے کرنے کے لئے سودی آمدن کے پیمانے کو استعمال کرنے سے کوئی حلال معاملہ حرام یا ناجائز نہیں ہو جاتا ہے۔ کسی بھی معاملے کے حرام اور ناجائز ہونے کا دارومدار اس میں ہونے والے معاملات اور لین دین کے طریقہ کار پر ہے۔ مثلاََ ایک شخص شراب کا کاروبار کرتا ہےا ور ٪10 منافع کماتا ہے جبکہ دوسرا شخص جُوس کاکاروبار کرتا ہے اور وہ بھی ٪10 منافع کماتا ہے۔ محض ایک جیسا منافع کمانے سے دوسرے شخص کی آمدن ناجائز نہیں ہوسکتی۔ یا اس کی تعبیریوں کی جا سکتی ہے کہ ایک شخص جو پہلے شراب کے کاروبار سے 10 فیصد منافع کماتا تھا ہدایت ملنے کے بعد اگر وہ جُوس کا کاروبار شروع کرے اور وہی شرح منافع جو اسے شراب کے کاروبار سے حاصل ہوتا تھا اس کو مدّنظر رکھ کر جوس کےکاروبار سے بھی ٪10 نفع حاصل کرے تو کیا اس کا یہ عمل محض اس لئے ناجائز اور حرام ہو گا کہ اس نے شراب کے شرح منافع کو استعمال کیا؟ ہرگز نہیں بلکہ اس جُوس کے کاروبار میں واقع ہونے والے معاملات کی نوعیت اگر شریعت کے موافق ہے تو وہ جائز ہو گا ورنہ حرام۔

 

 

(طے شدہ) مقرر آمدن کی وجہ سے کوئی بھی معاملہ حلال اور حرام نہیں ہوتا۔ مثلاََ تجارت پر منافع اور جائیداد پر کرایہ دونوں ہی صورتوں میں آمدن پہلے سے مقرر ہوتی ہے اور دونوں حلال آمدن کے ذریعے ہیں بلکہ اگر خریدوفروخت میں منافع یعنی آمدن غیر متعین ہو تو وہاں یہ معاملہ ناجائز ہو جائے گا۔

آپ کی شرحِ منافع بھی وہی ہے جو زرعی ترقیاتی بینک لمیٹڈ کی ہے۔ پھر سود سے پاک ہونے کا دعوٰی کیسے.

جواب: زرعی ترقیاتی بنک لمیٹڈ اسلامک بینکنگ ڈویژن میں جس سرمایہ  پر منافع دیا جاتا ہے وہ مضاربہ کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ مضاربہ اُس اشتراک کو کہتے ہیں جس میں ایک فریق سرمایہ دیتا ہے جسے “رب المال” کہتے ہیں جبکہ دوسرا فریق اپنی خدمات اور مہارت پیش کرتا ہے جسے “مضارب” کہتے ہیں۔ مذکورہ صورت میں ڈپازٹر ‘رب المال’ جبکہ بینک ‘مضارب’ ہوتا ہے۔ دونوں فریق منافع میں شریک ہوتے ہیں۔ اس نفع میں شراکت کی نسبت (Ratio) اکاؤنٹ کھولتے وقت طے شدہ ہوتی ہے۔ یہ نسبت (Ratio) بعد میں آپ کی سہولت کے پیش نظر ‘فیصد’ میں آپ کو بتائی جاتی ہے۔ تا کہ آپ کو اپنی آمدن کا بہتر اندازہ ہو سکے۔ مثلاََ آپ نے لاکھ روپے اپنے سیونگ اکاؤنٹ میں رکھوائے ہیں اور مہینے کے اختتام پر اس لاکھ روپے پر ایک ہزار منافع ہوتا ہے تو ہم اس ہزار روپے کو پہلے سے طے شدہ نسبت کے مطابق تقسیم کریں گے۔ مثلاََ اگر وہ نسبت 50:50 کی ہے یعنی آدھا منافع آپ کا اور آدھا ہمارا تو ہم آپ کو پانچ سو روپے دیں گے۔ اگر اس پانچ سو روپے کو ‘فیصد’ کے حساب سے دیکھیں تو یہ سالانہ ٪6 بنتا ہے جو ہو سکتا ہے وہی شرح ہو جو زرعی ترقیاتی بینک بھی دے رہا ہے۔

 

ان حالات میں بہتر تو یہی ہے کہ اپنی  رقم ایسے بینک میں رکھوائے  جس کے بارے میں مستند علماء کرام نے اسلامی بینک ہونے کا فتوٰی جاری کیا ہو۔ سودی بینک کے کرنٹ اکاؤنٹ میں محض حفاظت کے پیش نظر رقم رکھوانے سے بھی پرہیز کرنا چاہئے۔ کیونکہ اس میں اگرچہ خود سود نہیں لے رہا لیکن سود کا کاروبار میں معاونت کا ذریعہ بن رہا ہے۔

 

زرعی ترقیاتی بنک لمیٹڈ اسلامک بینکنگ ڈویژن مختلف کاروبار میں، جوکہ اس کے شرعیہ بورڈ سے منظور شدہ ہیں ان میں  سرمایہ کاری کرتا ہے۔

 

فتویٰ کی تفصیلات کے لیے یہاں کلک کریں۔